0%

ادارا معارف اسلامی

ادارا معارف اسلامی

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ملک میں اسلامی نظام کا دارومدار دو بنیادی امور پر ہے۔

اولاً:معاشرے میں ایک ایسی جماعت کا وجود جو اللہ کے دین پر پختہ ایمان رکھتی ہو اور اپنی ساری افرادی قوت اور جملہ وسائل کے ساتھ پورے دین کی اقامت اور غلبہ کے لیے مصروف جدوجہد ہو تاکہ وہ دین حق جس پر اس کا ایمان ہے، اس کی زنگی میں بھی جاری و ساری ہو۔

ثانیاً:ایک ایسی فکری و عمل تحریک کو برپا کرنا جو عصر حاضر میں پیش آمدہ زندگی کے تمام مسائل کا حل اسلام کی تعلیمات کے مطابق پیش کرے۔ خصوصاً قانون، تعلیم، معیشت و معاشرت کے شعبوں میں فکری، علمی اور تحقیقی و اجتہادی مواد پر تیار کرتی رہے۔

 

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے موجودہ صدی کے ربع اول میں تن تنہا جس کام کا آغاز کیا تھا اور پھر ۱۴۹۱ء میں جس جماعت کی بنیاد رکھی تھی اس میں ان دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو دینی علوم میں غیر معمولی دسترس، گہری بصیرت اور اعلیٰ مہارت کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے علوم و فنون میں بھی گہرا ملکہ عطا فرمایا تھا اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو جو امتیازی حیثیت عطا کر رکھی تھی اس میں وہ بڑی حد تک منفرد نظر آتے ہیں اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مولانا کی برپا کردہ اسلامی تحریک کا دائرہ صرف برصغیر پاک و ہند تک محدود نہیں رہا بلکہ بتدیج پوری دنیا تک پھیل گیا اور اس کے نتیجے میں ملت اسلامہ کی نوجوان نسل کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی زندگیوں کو فریضہ اقامت دین کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

یہاں یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ مولاناؒ نے جس عظیم الشان تحریک کی بنیاد تن رکھی تھی اس کی حیثیت محض ایک فکری تحریک کی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اجتماعی جدوجہد کے لیے جماعت اسلامی کے نام سے ایک باقاعدہ جماعت بھی قائم کی تاکہ وہا س انقلابی فکر کو عمل کے قالب میں ڈھال سکیں۔ مولاناؒ ایک طویل مدت تک اس تحریک کی فکری و عملی قیادت کرتے رہے۔ اس دوران میں وہ ایک طرف کتاب و سنت کی روشنی میں جدید و قدیم جاہلی فلسفوں کے پیدا کردہ مغالطوں اور شکوک شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے علمی و فکری میدان میں لوگوں کی رہنمائی کا سامان فراہم کرتے رہے اور دوسری طرف وہ اس تحریک کی عملی قیادت بھی کرتے رہے جو انہوں نے دور حاضر میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے برپا کر رکھی تھی۔

مولانا مرحوم شروع ہی سے اس بات کے متمنی تھے کہ وہ اپنی نگرانی اور راہنمائی میں ایک ایسا علمی و تحقیقی ادارہ قائم کریں جس میں ایسے بالغ نظر اصحاب علم و فضل موجود ہوں جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہوں، جو ایک طرف ان تباہ کن افکار و نظریات اور فلسفوں کا توڑ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جو جدید ماہ پرستانہ تہذیب کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظام کی برکات اور اوصاف کو صحیح طور پر واضح کرکے پیش کرنے کی استعداد سے بہرہ ور ہوں اور یوں وہ اس اسلامی انقلاب کی راہیں ہموار کرنے کا فریضہ ادا کریں جس کے لیے جماعت اسلامی جدوجہد کر رہی ہے۔

اس مقصد کے لیے مولانا مرحوم نے ۳۶۹۱ء میں ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کراچی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کام کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر یہ طے پایا تھا کہ اس کی فکری باگ ڈور براہ راست مولاناؒ کے ہاتھوں میں رہے، چنانچہ مرحوم اس ادارے کے صدر تھے، پروفیسر خورشید احمد صاحب سیکرٹری جنرل تھے اور مقامی طور پر جملہ انتظامی کاموں اور مالی امور کی ذمہ داری چودھری غلام محمد مرحوم امیر جماعت اسلامی کراچی نے اٹھائی اور حقیقت یہ ہے کہ بحسن و خوبی نبھائی۔ ممتاز عالم و محقق مولانا محمد ناظم ندوی اس کے نائب صدر تھے۔ اس ادارے کے لیے مولانا منتخب الحق اور مولانا متین انصاری جیسے ممتاز اصحاب علم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب کے کراچی سے باہر منتقل ہوجانے کے بعد جناب سید منور حسن اس ادارے کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے جو کافی عرصے تک اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں۔ اس ادارے کی طرف سے اب تک مختلف اسلامی موضوعات پر ایک بڑی تعداد میں گراں قدر علمی و تحقیقی کتابیں شائع کی جاچکی ہیں۔ اس ادارے کے زیر اہتمام پہلے Criterionکے نام سے اور پھرUniversal Messageکے نام سے انگریزی زبان میں ایک گراں قدر مجلہ بھی نکالا جاتا رہا ہے، علاوہ ازیں ادارے نے تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی خاصی اہم خدمات انجام دی ہیں۔

اسی طرح ۷۶۹۱ء میں ڈھاکہ میں مولانا عبد الرحیم مرحوم کی قیادت میں ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کی ایک شاخ قائم کر دی گئی اور تحریک کے بنیادی لٹریچر کو بنگالی زبان میں منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس ادارے کو نئے سرے سے منظم کیا اور یہ مقامی زبان میں اسلامی کتب شائع کرکے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ مولاناؒ کی اپنی رہائش گاہ چونکہ لاہور میں تھی اس لیے ان کی یہ خواہش تھی کہ اسی نوعیت کا ایک علمی و تحقیقی ادارہ لاہور میں بھی قائم کیا جائے جو ان کی براہ راست نگرانی و راہنمائی میں کام کرے۔ اس ادارے میں مولاناؒ بالغ نظر اصحاب بصیرت کی ایک ایسی ٹیم لانا چاہتے تھے جو اپنے آپ کو دسری تمام قسم کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر فارغ کرکے اسلامی نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق و تصنیف کے کار عظیم کے لیے وقف کردیں۔ لیکن بوجوہ اس عظیم الشان منصوبے پر عمل درآمد میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔

۹۷۹۱ء کے اوائل میں جب مولانا مرحوم کو دنیا بھر میں خدمت اسلام کے سلسلے میں عظیم الشان خدمات انجام دینے پر پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے انعام کی یہ ساری رقم جو دو لاکھ سعودی ریال اور سونے کے ایک تمغے پر مشتمل تھی، ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کے قیام کے اپنے اس دیرینہ منصوبے کی تکمیل کے لیے وقف کر دی اور ارشاد فرمایا کہ

”جو ایوارڈ مجھے خدمت اسلام کی وجہ سے ملا ہے اس کی رقم خدمت اسلام کے مقصد کے لیے ہی خرچ کی جانی چاہیے۔“

اس کے ساتھ ہی مولاناؒ نے اس ادارے کو چلانے کے لیے ایک مجلس منتظہ بھی تشکیل دی لیکن ابھی اس ادارے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا کہ مئی ۹۷۹۱ء میں مولاناؒ کی علالت شدت اختیار کر گئی۔ اور ۲۲ ستمبر ۹۷۹۱ء کو مرحوم نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ادارہ مولانا مودودیؒ مرحوم و مغفور کی زندگی کا آخری فکر ع وعملی منصوبہ (Brain Child)ہے۔

مولانا مرحوم کی وفات کے بعد میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان اس ادارے کے نئے چیئرمین منتخب ہوئے اور ادارے نے ان کی سربراہی میں ان عظیم مقاصد کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ مولانا مودودیؒ مرحوم نے مولانا خلیل احمد حامدی صاحب کو اس کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا تھا۔ انہوں نے بڑی محنت سے اس ادارے کو قائم کیا۔ اس کے لیے مالی و افرادی وسائل جمع کیے۔ عمارت تیار کرائی اور کامیابی کے ساتھ نومبر۴۹۹۱ء میں اپنی ایک حادثے میں وفات تک چلایا۔ ادارے کے دفاتر جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے جوار میں ایک پر سکون ماحول قائم کیے گئے ہیں جہاں یہ ادارہ مولانا مرحوم کی تمناؤں کے عین مطابق ایک طرف اسلامی نظام زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جدید عصری اسلوب میں لٹریچر کی تیاری کے لیے کام کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کے زیر اہتمام ایسے اصحاب علم وفکر کی تیاری کے لیے کام ہو رہا ہے جو آگے چل کر احیائے اسلام کی اس عظیم الشان تحریک میں ایک موثر کردار ادا کرسکیں گے جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج پوری دنیا میں ہوچکا ہے۔ ۴۹۹۱ء میں مولانا خلیل حامدیؒ کی رحلت کے بعد جناب چوہدری محمد اسلم سلیمی صاحب کو ادارے کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انہوں نے دس سال تک ادارے کی سربراہی کا فرض بحسن وخوبی ادا کیا اور بہت سے علمی منصوبوں کو اپنی علمی ٹیم کی مدد سے پایہئ تکمیل تک پہنچایا۔ ۴۰۰۲ء میں حافظ محمد اداریس کو ادارے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اور وہ تاحال اس کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے ادارے کی عمارت کو بالائی منزل پر ایک عظیم الشان ہال تعمیر کرنے کے لیے فنڈریزنگ کی مہم چلائی اور الحمد للہ احباب اور اہلِ خیر کے تعاون سے ایک خوب صورت ہال تعمیر ہوگیا۔ اس تعمیر کے اب ادارے میں جگہ کی تنگی کا حل نکل آیا ہے۔ ہال لائبریری کی ضروری پورا کرنے کے علاوہ کانفرنسوں اور سیمینارز کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔

جون۹۰۰۲ء میں محترم میاں طفیل محمد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میاں صاحب نے زندگی بھر ادارے کے چیئرمین کے طور پر گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جہود کوقبول فرمائے۔ میاں صاحب کی وفات کے بعد مجلس منتظمہ نے اجلاس منعقدہ……میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کو ادارے کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کو صحت و عافیت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔

مقاصد و اہداف

مولانا مودودیؒ نے ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں لاتے ہوئے اس کے جو اہداف و مقاصد متعین فرمائے تھے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

تحقیق و تصنیف

انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدید عصری اسلوب میں ایسا علمی و تحقیقی لٹریچر تیار کرنا جو ایک طرف زندگی کے تمام میدانوں مثلاً تعلیم و تربیت، معیشت و معاشرت، فلسفہ و تاریخ، سیاست و حکومت، وغیرہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی کرتا ہو اور دوسری طرف ان شکوک شبہات کے تسلی بخش جوابات بہم پہنچاتا ہو جو جدید جاہلی فلسفوں کے فروغ کے نتیجے میں ذہنوں میں پیدا ہوچکے ہیں۔

تراجم

گزشتہ چودہ سو سال کے دوران میں امت کے اصحاب علم و فکر اور مجتہدین نے جو عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا ہے اس میں سے اہم ترین اور مفید کتب کو اردو اور دوسری مقامی زبانوں میں منتقل کرکے ایک ایسے اسلوب میں پیش کرنا جو جدید ذہن کو مطمئن کر سکتا ہو۔ علاوہ ازیں دنیا کی مختلف زبانوں میں موجود عصر حاضر کے ممتاز مسلم مفکرین اور داعیان اسلام کی گراں قدر تصانیف کو ان زبانوں سے اردو منتقل کرنا، نیز اردو زبان میں موجود اہم دینی و علمی اور تحریکی کتب کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا۔

عصر حاضر کے مسائل کا مطالہ و تحقیق

مغرب کی لادینی تہذیب کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسائل کا اسلام کی روشنی میں حل پیش کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ مغرب کی بے خداتہذیب نے انسان کو جن بے پناہ مسائل اور مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ان کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام کے اپنانے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی جمہوریت، کمیونزم، اشتراکیت اور دوسرے جاہلی فلسفوں کی فکری گمراہیوں اور علمی تباہ کاریوں کا پوسٹ مارٹم کرکے یہ ثابت کرنا کہ ان مادہ پرستانہ افکار و نظریات کا دام فریب امت مسلمہ کے لیے کس قدر خوفناک نتائج کا حامل ہے۔

باصلاحیت افراد کی تربیت کا اہتمام

وقتاً فوقتاً ایسے ریفریشر کورسز کا انعقاد کرنا، جن کے ذریعے باصلاحیت افراد کو مختلف زبانوں میں اس قدر استعداد سے بہرہ ور کر دیا جائے کہ وہ ان زبانوں میں تراجم اور تحقیق و تصنیف کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے فکری و عملی دونوں میدانوں میں قیادت مہیا کرسکیں۔ ادارے نے اب تک چار تحقیقی و تصنیفی کلاسوں کے ذریعے ۶۳ نوجوان سکالرز کو تربیت دی ہے۔ یہ کلاسیں جون،جولائی، اگست تین ماہ کے لیے موسمِ گرما کی چھٹیوں میں منعقد کی گئیں۔ پہلی کلاس 2004ء، دوسری کلاس ۶۰۰۲ء، تیسری کلاس ۷۰۰۲ء اور چوتھی کلاس ۸۰۰۲ء میں منعقدہوئی۔

عالم اسلام کو درپیش مسائل پر ریسرچ

عالم اسلام کو درپیش مختلف سیاسی و معاشرتی اور عمرانی و اقتصادی مسائل کا مطالعہ و تجزیہ کرنے کے بعد ان کا حل پیش کرنا، اسلام کی حامی و علمبردار تحریکوں اور شخصیتوں کو متعارف کرانا، اسلام دشمن تحریکوں اور ان کی سازشوں و ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرنا اور دنیائے اسلام کے قائدین اور عوام کو یہ باور کرانا کہ ان کے سارے مسائل کا حل اتحاد ملی اور اسلامی نظام کے قیام میں مضمر ہے۔

دوسرے علمی اور تحقیقی اداروں سے روابط قائم کرنا

عالم اسلام اور عالم عرب کے مختلف علمی و تحقیقی اداروں، جامعات اور اس نوعیت کے دوسرے اداروں کے ساتھ رابطہ قائم کرکے باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنا تاکہ اسلامی افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت اور امت مسلمہ کے عظیم علمی ورثے کے احیا کے لیے باہمی تعاون سے کام کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ علمی وفود کا تبادلہ کرنا تاکہ دعوت اور علمی تحقیق کے میدانوں میں ایک دوسرے کے تجربوں سے استفادہ کرتے ہوئے علمی و تحقیقی ذوق کو مزید پروان چڑھایا جاسکے۔

اتحاد امت

مختلف فقہی مسالک کے درمیان اختلافات کی خلیج کو کم سے کم کرتے ہوئے انہیں کتاب و سنت کی روشنی میں مشترک اصولوں پر متحد کرنا اور راہ اعتدال اختیار کرنے کی دعوت دینا، اس سلسلے میں سلف صالحین کی مساعی جمیلہ سے استفادہ کرنا۔

یہ ہیں وہ اہداف و مقاصد جن کا تعین ’’ادارہ معارف اسلامی‘‘ کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس ادارے کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا تھا۔ مرحوم کی وفات کے بعد ادارے کی مجلس منتظمہ نے ان دو مقاصد کا مزید اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا جو حسب ذیل ہیں۔

 سید مودویؒ کی دعوت کو عام کرنا

سید مودودیؒ کی دعوت کو عام کرنے کے لیے ان کی ان گراں قدر تصانیف کی ترویج و اشاعت جو انھوں نے اپنی پچاس سالہ دعوتی زندگی کے دوران میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد اور اسلام دشمن تحریکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تصنیف کیں۔ علاوہ ازیں مختلف موضوعات سے متعلق مولانا مرحوم کی شہرۂ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کے گراں قدر مضامین کو مستقل کتابوں کی صورت میں مدون کرکے شائع کرنا، نیز مولانا کی زندگی، دعوت اور تحریک سے متعلق لٹریچر کی اشاعت کا خصوصی اہتمام کرنا۔

۲۔ تعلیمی و تحقیقی وظائف کی تخصیص:

ایسے صالح اور باصلاحیت نوجوانوں کے لیے جو زندگی کے مختلف میدانوں مثلاً تعلیم و تربیت، معیشت و معاشرت، تاریخ و فلسفہ یا فقہ و قانون میں تحقیقی اور علمی کام کی استعداد سے بہرہ ور ہوں ’’سید مودودیؒ سکالر شپس‘‘ کے نام سے خصوصی وظائف کی منظوری، ان وظائف کی منظوری کے دوران میں علمی استعداد کے ساتھ تحریکی تعلق بھی پیش نظر رکھا جائے۔

ادارہ معارف اسلامی کے اہم منصوبے

ادارہ معارف اسلامی کے زیر اہتمام مندرجہ ذیل منصوبوں پر کام ہوا اور ہورہا ہے:

اسلامی قانون کی تدوین

ایک کمیٹی جو ماہرین فقہ وقانون پر مشتمل ہے اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی ہے کہ وہ جدید قانونی نظام کا جائزہ لے کر اسلامی قانون کی اس طریقے سے تدوین نو کرے کہ اس قانون کا بالفعل نفاذ ممکن ہوسکے اور ساتھ ہی ایسے مآخذ و مصادر پر تحقیق کا کام کرے جو اسلامی فقہ و قانون میں امہات الکتب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کمیٹی کا یہ کام بھی ہوگا کہ وہ اسلامی نظام قانون کے مختلف پہلوئوں پر مستند کتابوں کی تیاری و اشاعت کا اہتمام بھی کرے۔

مختلف فقہی مذاہب کے متفق علیہ فتاویٰ

ادارے میں ایک ایسی جامع کتاب تیار کرائی جارہی ہے جس میں مختلف فقہی مکاتب فکر کے متفق علیہ احکام و فتاویٰ بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمانان پاکستان کی اکثریت اگرچہ فقہ حنفی کو مانتی ہے لیکن خود احناف کے مختلف گروہوں کا اپنا اپنا علیحدہ مجموعہ فتاویٰ ہے جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں اور اس کتاب کو مرتب کرتے وقت یہ دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ ان گروہوں کے معتمد علیہ مجموعہ ہائے فتاویٰ میں دیے گئے اکثر فتاویٰ باہم یکساں ہیں۔ مختلف فقہی مکاتب فکر کا متفقہ علیہ فتاویٰ کا جامع مجموعہ مرتب کردینے سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے درمیان ان شاء اللہ اتحاد و ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور ملی یکجہتی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگی۔

تاریخ دعوت اسلامی برصغیر پاک و ہند میں

ایک اہم پروجیکٹ جو ادارہ معارف اسلامی نے شروع کیا ہے، برصغیر پاک و ہند میں دعوت اسلامی کے آغاز و ارتقاء کی تاریخ کی ترتیب و تدوین ہے تاکہ نئی نسل کو معلوم ہوسکے کہ تحریک اسلامی کے السابقون الاولون نے راہ حق میں کتنی عظیم اور جانگسل جدوجہد کی ہے، یہ تحریک کن مراحل سے گزری ہے اور ان کے قائدین کو قید وبند کی کیا مشکلات پیش آئیں اور جان کی بازی لگا دینے کا مرحلہ کب اور کس طرح پیش آیا اور اس موقع پر صبر و استقامت کا کیا عظیم الشان مظاہرہ کیا گیا۔ جماعت کی بندش اور اس ناروا حکم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کس طرح کامیاب ہوئی۔ غرض تمام نشانات منزل کی نشان دہی کی صراحت کردی جائے تاکہ بعد میں آنے والے رہنمائی حاصل کرسکیں۔

تحقیق و تالیف اور تراجم

ادارے نے اسلامی نظام زندگی کے مختلف پہلوئوں سے متعلق بعض گراں قدر قدیم و جدید عربی کتب کا انتخاب کرتے ہوئے انھیں اردو، انگریزی، فارسی اور بعض دوسری اہم زبانوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مثلاً یحییٰ بن آدم کی کتاب الخراج، مقدسی کی منہاج القاصدین، امام شو کانی کی نیل الاوطار، ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی فقہ الزکوٰۃ، مجلس وکلاء اردون کا مرتب کردہ سول کوڈ، امام ابن الطلاع اندلسی کی نہایت اہم کتاب اقضیۃ الرسول جس پر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی نے بہت مفید تحقیق کی ہے، سید مودودیؒ کی تفہیم الاحادیث وغیرہ، ان میں سے بیشتر کتابوں کے تراجم شائع ہوچکے ہیں جن کا تعارف آئندہ صفحات میں دیا جارہا ہے۔ اور بعض دوسری اہم اور مفید کتابوں کے تراجم زیر طبع ہیں۔

ادارۂ معارف اسلامی مندرجہ ذیل شعبہ جات پر مشتمل ہیں:

تنظیمی امور

اس شعبے کے سپرد ادارے کی جملہ ضروریات پوری کرنا، مختلف اہل علم و فضل حضرات سے رابطہ رکھنا، مجلس منتظمہ کے اجلاس کا انعقاد اور اس کی کارروائی قلم بند کرنا، مسودات کا ریکارڈ رکھنا اور ان کی طباعت کا اہتمام و انصرام کرنا نیز خط و کتابت اور جملہ دیگر انتظامی امور کی نگرانی۔ اس شعبہ کے انچارج محمد انور گوندل ہیں۔ جبکہ مختار چودھری صاحب ناظم دفتر ہیں۔

تحقیق و تراجم

اس شعبے کو تحقیق و تدوین کے ضمن میں ہمہ وقتی اور بیرونی سکالرز کا تعاون حاصل ہے۔ تصنیف و تالیف اور تراجم کے علاوہ مسودات کی صحت زبان اور نظر ثانی کا کام بھی اس شعبہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس شعبے سے بڑے بڑے نامور اہل علم و قلم وابستہ رہے ہیں۔ جن میں جناب نعیم صدیقی مرحوم۔ جناب جسٹس (ر) ملک غلام علی مرحوم، مولانا سید شبیر احمد مرحوم، سید نظیر زیدی مرحوم، فیض احمد شہابی مرحوم شامل ہیں۔ تحقیق و تراجم کے میدان میں ان کے کارہائے نمایاں اب تاریخ کاحصہ ہیں۔ ان کے علاوہ مولاناگوھر رحمان، مفتی سیاح الدین کاکا خیل کی قلمی معاونت ہمیں حاصل رہی ہے اور ان کی تحریر کردہ کتب کی اشاعت بھی ادارے کے حصے میں آئی۔ ملک بھر کی جامعات کے پروفیسر صاحبان، سکالرز اور مدارس کے علماء کرام سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔

اس وقت ادارہ سے وابستہ اہل قلم کی فہرست میں مولانا عبد القیوم ، حافظ محمد ادریس، جناب چوددھری محمد اسلم سلیمی، جناب جمیل احمد رانا، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، سلیم منصور خالد، ڈاکٹر عبد الغنی فاروق، ساجد الرحمن صدیقی کاندھلوی، پروفیسر الیف الدین ترابی شامل ہیں۔

شعبہ تفہیم الاحادیث

اس شعبہ کے تحت مولانا عبد الوکیل علوی صاحب نے تفہیم الاحادیث کی صورت میں ایک گرانقدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے ان تمام احادیث کو یکجا کر دیا ہے جنہیں مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ نے اپنی تحریروں میں بنائے استدلال بنایا ہے،پھر ان کی تخریج کرکے ان کو اس طرح مرتب کیا کہ فقہی طرز پر آٹھ جلدوں پر مشتمل ایک جامع اور مفصل مجموعۂ احادیث تیار ہو گیا ہے۔ ادارے نے ان کو خوبصورت انداز میں شایع کیا۔

شعبہ استفسارات

مرکز جماعت میں ملک اور بیرون ملک سے موصول ہونے والے معاشرتی، معاشی، تمدنی اور دیگر معاملات پر فقہی اور علمی نوعیت کے سوالات و استفسارات کا جواب دینا اس شعبہ کے ذمے ہیں۔

ان جوابات کو بعد ازاں کتابی شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔ ادارہ اب تک مولانا مودودیؒ کے رسائل و مسائل حصہ پنجم اور ملک غلام علیؒ کے رسائل و مسائل حصہ ششم و ہفتم اور شیخ الحدیث مولانا عبد المالک صاحب کے جوابات پر مشتمل حصہ ہشتم شائع کر چکا ہے۔ مولانا عبد المالک صاحب اس شعبہ کے سربراہ ہیں۔ یہ شعبہ سرکاری و غیر سرکاری مختلف اداروں کی طرف سے مسائل و قوانین کے بارے میں رائے طلب کرنے پر ٹھوس علمی و تحقیقی جواب تیار کر کے بھی دیتا ہے۔ تحریری جوابات کے علاوہ بعض لوگوں کو فون پر بھی مسائل بتائے جاتے ہیں۔

لائبریری

ادارے میں ایک ریفرنس لائبریری قائم ہے جس میں عربی، اردو اور انگریزی کتب کی مجموعی تعداد تقریباً پچیس ہزار ہے۔ ان کتب کے علاوہ میں لائبریری میں

٭       جماعتی اخبارات و رسائل کے فائل رکھے گئے ہیں۔

٭       مولاناؒ کی کتب کے اولین ایڈیشن فراہم کے گئے ہیں۔

٭       مطالبہ اسلامی نظام کی مہم ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک چلنے والی تمام مہمات پر شائع ہونے والے پمفلٹ اور دو ورقے بھی جمع کیے گئے ہیں۔

٭       مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کی مخالفت میں شائع شدہ کتب بھی فراہم کی گئی ہیں۔

٭       کئی غیر جماعتی رسائل کے فائل بھی رکھے جاتے ہیں۔

محترم عبد الرحمن صاحب تجربہ کار اور کوالیفائیڈ لائبریرین ہیں جو شب و روز لائبریری کی توسیع کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس لائبریری کے لیے مولانا ملک غلام علی مرحوم، حاجی محمد رفیق اشرفی مرحوم ،مولانا عبد الصبوح قاسمی (پشاور) اور ملک وزیر غازی ایڈوکیٹ (ملتان) کے قیمتی اور قابل قدر عطیات موصول ہوئے اور اب یہ لائبریری کی زینت ہیں۔

مقالہ نویسی

پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات اور دیگر کالجوں کے طلبہ و طالبات مقالات تحریر کرنے کے لئے ادارۂ معارف اسلامی سے مدد اور راہنمائی کے لئے رجوع کرے ہیں۔ ادارہ میں انہیں لائبریری اور مواد کے فوٹو سٹیٹ کی مکمل سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ادارہ میں موجود ریسرچ سکالرز ان طلبہ و طالبات کو مطلوبہ مدد و راہنمائی بہم پہنچاتے ہیں۔ مرکز علوم اسلامیہ منصورہ اور دیگر مدارس کے اساتذہ و طلبہ بھی لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں۔

اخباری انڈیکس و فائلنگ

اس شعبہ میں ۱۵۰ موضوعات کے تحت اخبارات و رسائل میں شائع شدہ اہم خبروں اور مضامین کا ریکارڈ رکھا جاتا رہا ہے۔ نیز فائلیں بھی تیار کی جاتی رہی ہیں۔ ۱۹۸۰ء ۱۹۹۴ء تک کا مکمل ریکارڈ ادارہ میں موجود ہے۔ ۱۹۹۵ء میں یہ شعبہ بند کر دیا گیا۔

طباعت و اشاعت کتب

تصانیف و تالیف اور تحقیق و تراجم کے ساتھ ساتھ اکیڈمی میں تیارہ شدہ کتب کی طباعت و اشاعت کا اہتمام بھی ادارہ خود کرتا ہے۔ ادارہ نے طباعت کا عمدہ معیار پیش کیا ہے۔ ناظم ادارہ اس کام کے ذمہ دار ہیں۔

مکتبہ معارف اسلامی

مکتبہ معارف اسلامی، ادارہ معارف اسلامی (وقف شدہ، رجسٹرڈ ادارہ) کا ذیلی ادارہ ہے۔ اسے ادارہ معارف اسلامی کا Sale Pointبھی کہا جاسکتا ہے۔ مکتبہ میں دیگر تحریکی اداروں کی کتب بھی رکھی جاتی ہیں۔ ملک و بیرون ملک سے آنے والے حضرات کو کتب کے حصول میں آسانی بھی میسر آئی ہے اور ارزانی بھی۔

شعبہ کمپیوٹر

کتب کی کمپوزنگ ، انٹرنیٹ کا استعمال ،ای میل کی وصولی و ترسیل اور ٹائٹلز کی تیاری اس شعبہ کی ذمہ داری ہے۔ جس کے تین نوجوان کمپوزر کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔

یہ مجلس ادارے کی سپریم باڈی ہے جسے  جملہ انتظامی امور کا اختیار حاصل ہے ۔ارکان کا تقرر و عزل عہدیداروں کا انتخاب وغیرہ سب اسی کے دائرہ اختیار میں ہے ۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ                   صدر

ڈاکٹر حافظ ساجدانور                   سیکرٹری جنرل/ڈائریکٹر

حافظ محمد ادریس                       رکن

راشد نسیم                                  رکن

شاہد وارثی                                رکن

سجاد مہر                                  رکن

ڈاکٹر اشتیا ق احمد گوندل             رکن

خواجہ ظفر الہٰی                         رکن

کارکنان ادارۂ معارف اسلامی

ڈاکٹر حافظ ساجد انور                    ڈائریکٹر ادارہ

محمدانور گوندل                            ڈپٹی ڈائریکٹر

مولانا عبدالمالک                           ناظم استفسارات

حافظ محمد ادریس                         سینئر ریسر چ سکالر

پروفیسر ظفر حجازی                   انچارج ریسرچ سیل

افتخار احمد شیخ                            ریسرچ اسسٹنٹ

نوید الرحمٰن علوی                         لائبریرین

شہزاد نصیرملک                           اکائونٹنٹ

محمد صدیق                                 شعبہ کمپیوٹر

محمداشرف سکندر                        شعبہ کمپیوٹر

طلحہ عارف                                 ڈیزائنر

محمدغنی                                     معاون دفتر

تنویر حسین                                  معاون دفتر

ریاض مسیح                                 خاکروب

کارکنان مکتبۂ معارف اسلامی

– انعام غوث                                    انچارج مکتبہ

محمدشہروز                                    کمپیو ٹر کمپوزر

محمدمبین                                        سٹیشنری انچارج

حذیفہ صدیق                                    معاون مکتبہ

Begin typing your search above and press return to search.
Select Your Style

You can choose the color for yourself in the theme settings, сolors are shown for an example.